Urdu Section

پنجاب کے مشہور شہر جہلم میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں کوئی اقتدار تو کوئی محبوب مانگنے آتا ہے ۔۔۔۔

لاہور (ویب ڈیسک) نامور خاتون صحافی شبینہ فراز بی بی سی کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ہیر رانجھا کا یہ قصہ آج بھی پنجاب کے لوگوں کو بے قرار رکھتا ہے۔ اگرچہ اس قصے کو بیتے صدیاں گزر گئی ہیں لیکن وہ پہاڑ، جہاں رانجھے نے جوگ لیا، ٹلّہ جوگیاں کا تھا اور جہاں پتھر کا ایک تخت آج بھی رانجھے کے جوگ کی یادگار کے طور موجود ہے۔جہلم سے تقریباً 20 کلومیٹر فاصلے پر سطح سمندر سے 3200 فٹ کی بلندی پر واقع ’ٹلّہ جوگیاں‘ یا جوگیوں کے ٹیلے کے اجڑے کھنڈرات میں صدیاں سانس لیتی ہیں۔اپنے وقت میں فقیروں کی یہ ایک ایسی کٹیا تھی جہاں سلاطین وقت حاضری بھرتے اور جوگیوں کی سیوا کرتے تاکہ ان کے اقتدار کا سورج تا دیر بلند رہے۔ٹیلے کے اونچے نیچے پتھریلے راستے، شکستہ مندر، بجھے چراغوں کے سیاہ طاقچے، کائی زدہ خشک تالاب، سوکھے پتے، بوڑھے شجر اور ٹیلے پر چاروں جانب گونجتا ہوا سناٹا۔ یہ سب بے زبان خاموشی گواہ ہیں کہ یہاں راجا پورس، سکندر اعظم اور اکبر بادشاہ سے لے کر ہیر کے رانجھے تک، سب نے دھونی رما کر اور تلک لگا کر اس ٹیلے کی رونق بڑھائی تھی۔لیکن آج یہاں دور دور تک ویرانی کا بسرام ہے۔ٹلّہ جوگیاں کی قدامت صدی دو صدی کی نہیں بلکہ کم و بیش تین ہزار سال پر محیط ہے۔ مختلف مورخین اس حوالے سے مختلف شواہد پیش کرتے ہیں مگر اکثریت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ ٹلّہ قبل مسیح بھی آباد تھا۔ٹلّہ جوگیاں بظاہر ایک عام سی عبادت گاہ نظر آتی ہے مگر تاریخ کے گرد آلود صفحات پلٹتے جائیں تو اس ٹیلے سے لپٹی تحریر کی نت نئی داستانیں سامنے آتی چلی جاتی ہیں۔معروف مصنف مستنصر حسین تارڑ اپنے ناول ’منطق الطیرجدید‘ کی ابتدا میں لکھتے ہیں کہ برطانوی فوجی افسر اور ماہر آثار قدیمہ الیگزانڈر کننگھم نے اپنی کتاب ’ہندوستان کا قدیم جغرافیہ‘ میں اس ٹیلے کے حوالے سے ایک عجیب داستان کا حوالہ دیا ہے جسے یونانی تاریخ داں پلوٹارچ نے اپنی تاریخ میں رقم کیا تھا۔الیگزانڈر کننگھم نے اپنی کتاب میں لکھا کہ پلوٹارچ کے مطابق 326 قبل مسیح میں جب راجا پورس سکندرِ اعظم کے ساتھ مقابلے کی تیاریاں کر رہے تھے تو ان کا ہاتھی سورج کی مقدس پہاڑی پر چڑھ گیا اور انسان کی آواز میں پورس سے درخواست کی کہ وہ سکندر کے مقابلے پر نہ اُتریں۔بعد ازاں اس پہاڑی کو ’ہاتھی کی پہاڑی‘ کے نام سے بھی پکارا جانے لگا۔مستنصر حسین تارڑ صاحب اپنے سفر نامے ’جوکالیاں‘ میں لکھتے ہیں کہ سکندر اعظم کے تاریخ داں نے ٹلّہ جوگیاں کے پہاڑ کو ’ایلی فینٹ ماﺅنٹین‘ پکارا ہے اور جب وہ خود ٹلّہ جوگیاں کی جانب آ رہے تھے تو واقعی دور سے اس پہاڑ کی شکل پر ایک ہاتھی کا شائبہ ہوتا تھا۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ ٹلّہ جوگیاں پر اس قدیم خانقاہ کی بنیاد ’کن پھٹے‘ جوگیوں کے سلسلے کے بانی گرو گورکھ ناتھ نے ایک صدی قبل مسیح رکھی تھی۔یہ ٹلّہ تقریباً دو ہزار سال آباد رہا۔ گرو بال ناتھ کا زمانہ شاید 15ویں صدی عیسوی رہا ہو گا کیونکہ ٹلّے اور رانجھے کے جوگ کا ذکر پنجابی نظم ہیر رانجھا میں بھی ملتا ہے۔رانجھا ہیر کے پیار میں ناکام ہو کر ٹوٹے دل کے ساتھ یہاں آیا اور اپنے کان چھدوا کر جوگی بال ناتھ کا چیلا بن گیا تھا۔اس ٹلّے سے وابستہ سب سے مشہور قصہ رانجھا کا ہے۔ ٹلّے پر موجودہ ریسٹ ہاؤس کے ڈھلوانی راستے کے آخری موڑ پر پتھر کی وہ سِل آج بھی موجود ہے جہاں پر رانجھے نے ہیر کے عشق میں اپنے کان چھِدوائے اور جوگ لیا۔گرو بال ناتھ نے اس غم کے مارے کے بدن پر راکھ ملی اور کان میں مندرے ڈال کر اپنا چیلا بنا لیا مگر عشق کی آگ نے رانجھے کو یہاں بھی ٹکنے نہ دیا اور وہ جوگی بن کر بھی ہیر کی تلاش میں سرگرداں رہا۔اس ٹلّے سے وابستہ ایک دلچسپ داستان پورن بھگت کی بھی ہے۔ برطانوی ماہر بشریات آر سی ٹیمپل کی 1886 میں شائع ہونے والی کتاب ’پنجاب کی لوک کہانیاں‘ میں سیالکوٹ کے ایک راجا سلواہن کی کہانی بیان کی گئی ہے جس کی دو رانیاں تھیں۔ایک اچھراں اور دوسری لوناں۔ رانی اچھراں کا ایک ہی بیٹا تھا پورن، جو چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھا۔اس کی سوتیلی ماں لوناں پورن پر فریفتہ ہو گئی اور جب وہ اس کے بہکاوے میں نہ آیا تو اس نے راجا سے پورن کی جھوٹی شکایت کی۔راجا رانی لوناں کی باتوں میں آ گیا اور اپنے بیٹے کے ہاتھ پیر سے محروم کرکے اسے کنوئیں میں پھنکوا دیا، جو آج بھی سیالکوٹ سے کلوال جانے والی سڑک پر موجود ہے۔پورن کئی برس تک اسی کنوئیں میں پڑا رہا۔ ایک روز گرو گورکھ ناتھ ادھر سے گزرے۔ انھوں نے اتفاق سے اپنا ڈیرا اسی کنوئیں پر لگایا اور اس کے بعد پورن کو کنوئیں سے نکلوایا اور اپنی روحانی طاقت سے پورن کا حال جانا۔جب انھیں معلوم ہوا کہ پورن بے گناہ ہے تو خدا سے دعا کی یوں پورن کے ہاتھ پاؤں سالم ہو گئے۔گرو نے اس کے کان چھِدوا کر اپنا چیلا بنا لیا۔ گرو گورکھ ناتھ کے ہی حکم پر پورن واپس گھر گیا تو اس کی سوتیلی ماں نے اس سے معافی مانگی اور اولاد کے لیے دعا کروائی۔پورن نے سوتیلی ماں کو معاف کر دیا اور اس کی دعا سے اس کی سوتیلی ماں کی گود بھی بھر گئی۔آج بھی بے اولاد لوگ اولاد کی خواہش میں پورن بھگت سے منسوب اس کنوئیں پر آتے ہیں اور اس کے پانی میں پھولوں کی پتیاں پھینکتے ہیں۔اولاد کی خواہش مند خواتین اس کنوئیں کے پانی سے غسل کرتی ہیں، نئے کپڑے پہنتی ہیں، پھر پرانے کپڑے جوتے روایت کے مطابق سب کچھ وہیں جلا دیے جاتے ہیں۔ٹلّے کے حوالے سے جوگی راجا بھی بہت مشہور داستان ہے۔ جب راجا بھرت ہری اجین کا حکمران بنا تو وہ 375 اور380 قبل مسیح کا درمیانی دور تھا۔ان کی بھی دو رانیاں تھیں۔ سیتا دیوی اور پنگلا دیوی اور دونوں ہی حسن و جمال میں یکتا تھیں مگر بھرت ہری سیتا کے حسن کا دیوانہ تھا۔یہ بھی ایک طویل داستان ہے جس کو اگر مختصراً بیان کیا تو ہوا یوں کہ راجہ بھرت ہری کی محبوبہ بیوی سیتا اپنے شوہر سے بے وفائی کی مرتکب ہوتی ہے اور پھر راز کھلنے پر موت کو سینے سے لگا لیتی ہے۔راجا بھرت ہری دودھ کا جلا تھا لہذا دوسری بیوی کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ایک موقع پر اس کی وفا کا امتحان لینے کےلیے اپنی موت کی جھوٹی اطلاع اس تک پہنچاتا ہے تاکہ وہ اس کا ردعمل جان سکے۔وفا کی ماری پنگلا دیوی شوہر کی موت کی خبر سنتے ہی گر کر جان دے دیتی ہے۔ان دونوں واقعات کا راجا بھرت ہری پر اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ تخت و تاج اپنے بھائی بکرماجیت کو سونپ کر نروان کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔اس کی تلاش اسے کوسوں دور نمک کے بلند و بالا پہاڑ اور جوگیوں کے مشہور استھان ٹلہ جوگیاں تک لے آتی ہے۔گرو گورکھ ناتھ کے پیار بھرے برتاؤ سے راجا کی بے کلی کچھ کم ہوتی ہے لیکن غم کا مارا یہ راجا زیادہ نہیں جی پاتا اور بہت جلد اس کی سانسوں کی ڈور اسی پہاڑ پر ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کی سمادھی بھی وہیں کہیں موجود تھی جو اب بے نشاں ہو چکی ہے۔دلی شہر کی مانند یہ تاریخی ٹیلہ بھی کئی بار اجڑا اور پھر آباد ہوا۔ حالیہ تاریخ میں 18ویں صدی عیسویں میں احمد شاہ ابدالی نے اس ٹلّے کو تاراج کر دیا تھا لیکن جب قتل و غارت کا دور ختم ہوا تو جوگی پھر لوٹ آئے تھے اور ٹلّہ پھر سے آباد ہو گیا تھا۔آخری بار یہ 1947 کی تقسیم کے بعد اجڑ گیا۔جوگیوں کا یہ ٹیلہ برصغیر پاک وہند میں مذہبی ہم آہنگی کی بہترین مثال تھا جہاں ہر مذہب کے جوگی آزادی سے اپنی عبادات کر سکتے تھے۔ہندو اور سکھوں کے لیے اس ٹلّے کی بڑی اہمیت ہے اور شاید اب بھی یہ موقع ہے کہ ان قدیم آثار کو بحال کر کے مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔(بشکریہ : بی بی سی )

Related Articles

Back to top button