Urdu Section

ہم مذہب کو کیوں مانتے ہیں؟

اِنسانی فطرت ہے کہ وہ یا تو کسی بھی بات ، کیفیت یا سوچ پر شک کرے گا یا مکمل یقین کرے گا۔ اس کو psychology of belief کہا جاتا ہے، اگر وہ یقین اور شک کے درمیان تذبذب میں ہو گا تو انسان اُس تذبذب کو دُور کرنے کے لئے تجسُس اور تحقیق کرے گا تاکہ اُس کی تشکیک یقین میں بدل جائے۔مذہب کسی نہ کسی عقیدہ سے منسوب ہوتا ہے۔ میَں ابھی دینِ اسلام کی بات نہیں کر رہا۔ اس کے لئے میرے اس مضمون میں ایک علیحدہ تحریر مختص ہے۔لفظ مذہب اَخذ کیا گیا ہے تہذیب سے۔ ایسی تہذیب ، جو روحانی تسکین کے لئے چند عبادات اور پوچا پاٹ کے طریقوں پر مشتمل ہوتی ہے، اُسے مذہب کا نام دیا گیا۔ اِسی لئے کسی بھی مذہب کی بنیاد ، علاقائی زبان، رہن سہن، خطّے کی جغرافیائی خصوصیات (گرمی، سردی، بارش، دریاؤں اور ندیوں کی کمی یا بہتات) اور اُس معاشرے کے انسانوں کی عقل و دانش کے معیار سے مربوط ہوتی ہے۔ سوائے، الہامی مذاہب کے، دنیا کے تمام دھرم انسانی مشاہدے، ضروریات اور Supernatural خیالات سے تشکیل پائے ہیں۔ اِنسانوں کا کوئی بھی گروہ قدرت کے وہ مظاہر جن پر اُس گروہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا، اُن قدرتی مظاہر کو اِنسانوں نے معبود، پرّبھو، ایشور، پرماتما، یزدان، یوھووا(Johoya) کہنا شروع کر دیا۔ صرف بدھ مذہب ایسا تھا جس میں خدا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ عقل و دانش، (یعنی بدّھی جو پراکِرت زبان کا لفظ ہے اورعقل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے) اورسچائی ہی اِنسان کو سپھلتا اور لابھ (فائدہ اور سکون) دے سکتے ہیں۔ جب کپل و ستو ریاست کے شہزادے سِدھارناتھ گوتم کو گیان مِلا یا بُدّھی ملی تو سِدھارناتھ کا نام مہاتمابُدھ پڑ گیا۔ بدھ مذہب میں دوزخ اور جنت کا کوئی تصوّر نہیں ہے۔اِنسانوں کی خدمت کرنے سے اور اپنی اَنا کو مارنے سے اِنسان بار بار پیدا ہونے کی تکلیف سے بچ جاتا ہے یعنی آواگون(Reincarnation) سے چھٹکارہ حاصل کر لیتا ہے اور ہمیشہ کے لئے نِروان حاصل کر لیتا ہے۔ چونکہ بُدھ مذہب میں خصوصی طور پر خدا یا معبود کا تصوّر نہیں ہے اس لئے یہ مذہب خدمت ، اِنکساری، نفس کشی کے اصولوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے ،یعنی آج سے 2500 سال پہلے گوتم بُدھ نے وحشی انسانی معاشرے میں یونیورسل اِخلاقیات کے چند پہلو روشناس کرا دئیے تھے، مثلاً مظلوموں سے ہمدردی، دان (خیرات) سچائی اورسیوا۔بڑی بات یہ کہ گھمنڈسے اجتناب۔دراصل ہر مذہب، معاشرے میں نیکی اور بدی کے تصور کو اِخلاقیات کی بنیاد بنا تا ہے۔مذہب اور دین۔ دین ایک مکمل طرزِ زندگی ہے جبکہ مذہب Beliefsاور چند آدابِ بندگی (Rituals) کا نام ہے۔ مذہب روحانیت سے تعلق رکھتا ہے خواہ روح کو تسکین بُت پرستی، آتش پرستی سے یا اَرواح پرستی سے ملتی ہو۔ مذہب انسان کے بنائے ہوئے عقیدوں اور ثقافتی رسم و رواج کا نام ہے ، کوئی بھی اِنسانی معاشرہ اپنے معبود کے لئے پالنہار، ایشور، پرّبھو(ہندی) الاھا(بائبل)Yohwa (یہود)کے لئے استعمال کرتا تھا۔ مختلف مذاہب (سوائے الہامی مذاہب کے) اپنی عبادت اور پوجا پاٹ کے مختلف اِرتقائی منازل طے کرتے ہوئے اپنی موجودہ شکل میں نظر آتے ہیں، لیکن ہر مذہب بشمول الہامی مذاہب (عیسائیت، یہودیت اور اسلام) انسانی عقل، منطق، فلسفے، فکر اور دلیل کی کُٹھالی میں جا کر اپنی اصل شکل سے ہٹ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر مذہب میں اصلاح کا عمل بھی ہر وقت جاری رہتا ہے۔ اسلام محض مذہب نہیں ہے، دراصل اسلام کا صحیح نام دین ہے جو عربی کا لفظ ہے جس کے معنی دنیا کی کسی بھی زبان میں سمجھائے تو جا سکتے ہیں لیکن لفظ دین کا ایک لفظی ترجمہ نہیں ہو سکتا۔ میَں دین کا مطلب مولویوں کے گھِسے پٹے جملے یعنی دین کا مطلب مکمل ضابطہ حیات ہے، سے نہیں سمجھاناچاہتا۔ آج کی نوجوان نسل کو دین کا مطلب سمجھانے کے لئے سلیس مثال دے کر سمجھانا پڑے گا۔ ہم اگر اپنی زندگی کے ہر پہلو کو اللہ تعالیٰ کی ہدائت کے مطابق گذاریں تو یہ دین ہے ، محض عبادت ادا کرنے کو ہم دین نہیں کہہ سکتے ۔ میَں معاشرے میں کس طرح رہتا ہوں ؟کیا میَں پابندیِ وعدہ اور پابندیِ وقت پر عمل کرتا ہوں؟کیا میَں اپنے کاروبار ، ملازمت اور روزگار میں دیانت داری قائم رکھتا ہوں؟ کیا میں اپنے آپ کو اور اِردگِرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھتا ہوں؟ کیا میَں حکومتی ٹیکسوں میں چوری تو نہیں کرتا؟کیا میَں لوگوں کا حق تو نہیں مارتا؟کیا میَں اپنے عزیزو اقارب، ہمسایوں اور روزمرّہ ملنے والے انسانوں سے دھوکا دہی تو نہیں کرتا؟کیا میَں معاشی انصاف اور اپنے مُلکی قوانین پر عمل کرتا ہوں؟اگر میَں اِن دس سوالوں کا جواب اثبات میں دیتاہوں تو میَں مولویوں کی اصطلاح کے مطابق دین میں مکمل طور پر داخل ہو چکا ہوں۔میرے اس مضمون کا عمومی عنوان ہے کہ میَں مذہب کو کیوں مانوں یا مانتا ہوں؟ یہ سوال آج کل کے اکثر باشعور اور سائنسی سوچ رکھنے والے اصحاب کرتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ جس معاشرے میں اِنسان صدیوں سے رہ رہا ہے اُس کی اِخلاقی بنیاد مذہبی سوچ نے ہی رکھی تھی۔ دنیا کا کوئی بھی دھرم ہمیں بے اصول طرزِ زندگی (Anarchist) گذارنے کی تلقین نہیں کرتا۔ کچھ دیر کے لئے آپ اپنے ذہن میں اِنسانی وحشت کا زمانہ لائیے ۔ جب اِنسان دوسرے وحشی جانوروں کی طرح زندگی گزارتا تھا۔ اُس دور کا اِنسان صرف Male یا Female کی شکل میں تھا۔ مقدس رشتوں (ماں ،بہن،بیٹی)کا اُسے احساس ہی نہ تھا۔ کمزور شہہ زور کے ہاتھوں مارا جاتا تھا۔ جو طاقتور تھا وہی اُس زمانے کی دولت کے حصول کا حق دار تھا۔ اس دولت میں عورت اور ڈھورڈنگر بھی شامل ہوتے تھے۔ جس طرح جانوروں میں جنگل کا قانون Survival of the fittest لاگو تھا اِسی طرح اُس دور کا وحشی اِنسان بھی تھا۔ لیکن وحشت کے اس دور میں انسان میں تجسُس اور فِکر کا رجحان پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مخلوق کا بہترین نمونہ تھا جس کی جبلّت میں تجسُس، تحقیق، تجربہ کرنے کی صلاحیت اور تجربے سے نتائج اَخذ کرنے کی اہلیت بتدریج آتی گئی۔اِنسان قدرت کے عناصر سے پیدا ہونے والی تباہی اور افادیت کے بار بار کے تجربوں سے Supernatrul کے یقین میں مبتلا ہوا اور پھر اُس نے اپنے تصوّر میں اُن مافوق الفطرت عناصر کی شبیہیں بنا لیں اور پھر اُن شبیہوں پر یقین کا ٹھپّہ لگا کر اُن کو پوجنے لگا۔ Psychology of belief کے تحت اِنسان نے اُن شبیہوں کو دیوتا کا مقام دے دیا۔ اُن دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنے اپنے خطّوں کے موسم، زبان، نباتات، دریاؤں اور پہاڑوں، ریگستانوں اور جنگلوں کے مطابق پوجا پاٹ کے طریقے ایجاد کر لئے۔ دریائے گنگا ، جمنا اور سرسوتی ہندوستان میں دیوتا یا دیوی بن گئے۔ یونان کے نابینا شاعر ہومر نے اولمپس کے پہاڑوں کو دیوتاؤں کا مسکن بنا دیا۔ امریکی انڈین باشندوں نے ہر فائدہ دینے والی چیز کو معبود بنا لیا۔ افریقی جنگل کے قدیم افریقیوں نے درندوں اور درختوں کو معبود بنا لیا۔ عرب کے ریگستانوں میں رہنے والوں نے بھی اپنے اپنے قبیلے کے دیوتا بنا لئے اورمختلف مذاہب کی اِبتدا ہوئی۔ ہر مذہب کے پوجا پاٹ کے اپنے طریقے تھے لیکن اِن میں کچھ اچھی چیزیں مشترک بھی پیدا ہو گئیں۔ خاندان کا تصوّر پیدا ہوا۔ سماجی آداب کی شکل نِکلی۔ بُرائی اور نیکی کے اصول بنے۔ میَں لفظ نیکی دانستہ استعمال کر رہا ہوں۔ مذہب میں نیکی اور اچھائی کے تصوّر ضروری نہیں کہ ایک ہی ہوں۔ دنیا کے کئی مذاہب میں مُدھرا(شراب/ وائن) پینا اچھائی بھی اور مذہبی نیکی بھی ہے، لیکن الہامی مذاہب میں مُدھرا کا استعمال سخت ممنوع ہے۔جو چیز معاشرے کے لئے فائدہ مند ہے وہ اچھائی ہے جبکہ نیکی اور بدی کا تصوّر خالصتاً مذہب سے بھی ہے۔ نیکی اور مذہب کے ساتھ ثواب اور گناہ کا تصوّر سامنے آتا ہے۔ یہ صرف دینِ اسلام ہے جو معاشرتی اچھائی کو نیکی کا درجہ بھی دیتا ہے۔ دراصل دین کا مطلب ہی معاشرے کی بھلائی ہے۔ یہ تو ہمارے مولوی حضرات ہیں جنہوں نے دین کو تنگ نظری اور صرف عبادات تک محدود کر دیا ہے۔ دینِ اسلام عالمگیراخلاقیات کا داعی ہے۔ کسی نابینا کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کروانا، سڑک پر گرے ہوئے کیلے کے چھلکے کو اُٹھا کر ڈسٹ بِن میں پھینک دینا، کئے ہوئے وعدے کی پابندی کرنا، اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا، یہاں تک کہ کار ڈرائیو کرتے ہوئے صبر کا مظاہرہ کرنا اور اپنی لین میں رہنا، یہ سب ادنیٰ سی معاشرتی اچھایا ں، دین کے زمرے میں تو آتی ہی ہیں لیکن معاشرے کو بھی صحت مند رکھتی ہیں۔ مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے مذہبی علماء نے دین کا آفاقی مطلب لوگوں کو سمجھایا ہی نہیں ۔میَں پاکستان اور سابقہ مشرقی پاکستان کے دیہاتوں میں بہت گھوما پھرا ہوں۔

پاکستان ائیر فورس کی ملازمت کے دوران ہماری موبائل یونٹ عموماً شہروں سے باہر پڑاؤ کرتی تھی۔ اُس وقت میری عمر20 سال کی ہوگی لیکن میری عادت تھی کہ میَں دیہاتیوں سے مختلف معلوماتی باتیں کرتا تھا۔ دین کے بارے میں اُن کا علم بڑا محدود تھا۔ اوّل تو وہ بیچارے دین کا مطلب صرف نماز ، روزے اور حج کو سمجھتے تھے۔ دیہاتی مسجد کے امام نے اسلام کے بارے میں جو اُوٹ پٹانگ بتا دیا بس وہی اُن کا دین تھا۔بنگالیوں کی ہندوانہ رسمیں اُسی طرح پختہ تھیں۔ ایسٹ پاکستان کے کچھ علاقوں میں گائے کا گوشت کھانا گناہ سمجھا جاتا تھا حالانکہ وہاں کی آبادی مسلمان تھی۔ اسی طرح سندھ بلوچستان ، پنجاب اور خیبر پختونخوا(سرحد)کے اکثر علاقوں کو ’’دین‘‘کی آفاقیت کا احساس ہی نہ تھا۔ اُن کے رسم و رواج، رہن سہن اور یہاں تک کہ اِنفرادی نام تک اسلامی ناموں سے قربت نہیں رکھتے تھے۔ جنوبی پنجاب میں شدّت پسند مسلمانوں کا زور ہونے کے باوجود عام دیہاتی کو کلمہ بھی درست پڑھنا نہیں آتا۔

بات ہو رہی تھی مذہب کو ماننے یا نہ ماننے کی۔ اِنسانی معاشرے کو مذہبوں نے خون خرابے میں ضرور نہلایا لیکن مذہب کا سب سے بڑا Contribution معاشرے کو اخلاقی قدریں مہیا کرنا ہے۔ میرے مُلحددوست مذہب سے اس لئے خائف ہوئے کیونکہ مذہبی لوگ عموماً فراخ دل نہیں ہوتے۔ اُن میں ضبط کی کمی ہوتی ہے، دوسرے کے نقطۂ نظر کو سنناگوارا نہیں کرتے۔ صنعتی اِنقلاب، ٹیکنالوجی، کمپیوٹراور نئی نئی معلوماتی کتابوں نے ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو Over-liberal بنا دیا۔ وہ خدا کا ہی منکر ہوگیا اور وہ بطور reaction لا مذہب ہوگیا۔ یہ طبقہ روشن خیال تو ضرور تھا لیکن اُس نے یہ نہیں جانا کہ اِنسانی فطرت میں ہے کہ وہ کسی نہ کسی معبود کو مانے، اُس سے اپنے دکھوں کا مداوا مانگے۔ بدھسٹ خدا کا تصوّر نہیں رکھتے لیکن وہ اپنی روحانی تسکین کے لئے لارڈ بُدھاکے آگے جھُکتے ہیں اور منتیں مانتے ہیں۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے کہ اگر مذہب نہ ہوتا تب بھی معاشرتی توازن کے لئے مذہب کو ایجاد کرنا پڑتا

Related Articles

Back to top button