Urdu Section

مسلمانوں، اسلام، اور آخرت میں کام آنے والی چیز

آج سے کچھ عرصہ پہلے ایک میٹرک کے دوست سے ملاقات ہوئی۔۔کھانے کے دوران باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ گورے اس لیے کامیاب ہیں کیوں کہ وہ ایک یا دو سلائس کھاتے ہیں، اور ہم پاکستانی جب تک تین چار روٹیاں نہ کھائیں ہمیں آرام نہیں آتا۔ اس لئے ہم سست ہیں۔ حالانکہ دنیا میں سب سے زیادہ موٹے امریکہ میں ہیں (35 فیصد)
2002 میں ایک دفعہ مجھے افغانستان ایک آڈٹ پر جانے کا اتفاق ہوا۔۔وہاں شام کے وقت ایک دوست کے ساتھ بلیرڈ کھیلنے والی جگہ پر چلا گیا وہاں افغانیوں سے بات کرتے کرتے ایک افغانی نے کہا، کہ ہم کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں کہ پاکستانی تو دودھ والی چائے پیتے ہیں اور ہم سبز قہوہ، جس کے اندر کوئی غذائیت نہیں۔ میں تھوڑا حیران ہوا کیوں کہ پشاور میں اکثر ہم آپس میں یہ کہتے تھے کہ افغانیوں کا قہوہ زیادہ اچھی چیز ہے اور ہم جو چائے پیتے ہیں یہ نقصان دہ ہیں۔

الغرض بات یہ ہے کہ ہماری قوم دوسری قوم کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے احساس کمتری کا شکار ہو کر یہ سمجھنا شروع کر دیتی ہے کہ دوسری قومیں اس لئے کامیاب ہیں کیونکہ ان میں کچھ خاص صلاحیت ہیں جو ہم میں نہیں۔۔۔مثلا اگر ہم کوڑا باہر پھینک رہے ہوں گے تو وہ کہیں گے دیکھو چین میں لوگ ایسا نہیں کرتے یا فرانس میں لوگ ایسا نہیں کرتے، (حالانکہ پاکستان میں بھی جو علاقے صاف ستھرے ہوتے ہیں وہاں پر بھی لوگ ایسا نہیں کرتے مثلآ ڈی ایچ اے، کینٹ، بحریہ ٹاؤن، یا اسلام آباد کے صاف ستھرے ایریاز وغیرہ)۔

یا ان کی نظر میں قطار میں کھڑے ہونا وہ صلاحیت ہے جس کی وجہ سے مغرب کامیاب ہیں اور ہم ناکام ہیں۔۔(حالانکہ مغرب میں بھی اگر گاڑیاں مقرر وقت پہ نا آئے تو اس سے بری صورتحال ہو جاتی ہے جتنی کی ہمارے ہاں ہے)

کچھ لوگ مغرب کے سائنس و ٹیکنالوجی کے معیار کو بنیاد بنا کر قوم کو کوستے رہتے ہیں کیوں انہوں نے اب تک سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی نہیں کی حالانکہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ممالک نیو کولونیل دور سے گزر رہے ہیں جس میں مغرب بالواسطہ طور پر ہمارے حکمرانوں اور نظام کے ذریعے ہمارے معاملات کو کچھ اسالیب سے کنٹرول کرتا ہے اور ہمیں ایک خاص حد سے آگے جانے نہیں دیتا۔ اور مغرب کے چہیتے حکمران ہی ہم پر مسلط ہو پاتے ہیں۔

پر کچھ لوگ مغرب کے کسی ارب پتی شخص کی عزم استقامت یا ثابت قدمی کو مثال بنا کر کہیں گے کہ دیکھو مغرب میں یہ صلاحیت ہے اس لیے وہ ہم سے آگے ہے۔اور اس وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام ایسے لوگوں کو راستے ہموار کرکے دیتا ہے جب کہ ہمارے حکمران کسی جہاز بنا کر اڑانے کی کوشش کرنے والوں کو جیلوں میں ڈال دیتے ہیں اور یہاں اے کیو خان گھر کے اندر نظربند زندگی گزارتا ہے۔

کوئی ہمیں یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ مغرب میں انصاف سستا ہے حالانکہ وہاں پر انصاف ہمارے ملکوں سے کئی گنا زیادہ مہنگا ہے۔ تو کوئی ہمیں مغرب کی تخلیقی صلاحیتوں پر رطب اللسان نظر آتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں ایسی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے والا کوئی نہیں ہے۔

جاوید چودھری کے یہ فارمولے ہو یا حسن نثار کی احساس کمتری کی ماری ہوئی یہ دلیلیں۔۔۔یہ دراصل مغرب زدہ ذہن کی پیداوار ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی قدریں ہو یا سائنس و ٹیکنالوجی، شرح تعلیم ہو یا انڈسٹریلائزیشن، یہ سب بنیادی طور پر ایک آئیڈیالوجیکل انقلاب کا نتیجہ ہے، پیش خیمہ نہیں۔ بس وہ آئیڈیالوجیکل انقلاب وہ ہو، جس کو قوم قبول کرے۔ بے شک وہ اسلام نہ ہو۔

اس ترقی، اس نشاۃ ثانیہ کا راستہ یہ ہے۔

ترقی کیلئے اسلام یا خلافت شرط نہیں۔ ترقی کی دو شرائط ہیں۔
قوم ایک آئیڈیالوجی اپنائے اور
دوم: وہی آئیڈیالوجی ان پر نافذ ہو

مغرب نے سیکولرزم کو اپنایا، اس اس بنیاد سے نکلنے والے سرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کو اپنایا (جمہوریت، آزادیاں، کیپیٹلسٹ معیشت، برابریاں، حقوق، قومیت)، اور جب 18 ویں صدی میں انقلابات کے بعد یہی دین ان پر نافذ ہوا، تو پوری قوم اور نظام ایک سمت میں آ گئے اور یورپ نے ترقی کی۔

سوویت یونین میں لوگ کارل مارکس کی کمیونزم سے متاثر ہوئے اور جب 1917 میں انقلاب کے ذریعے وہی نظام ان پر نافذ ہوا تو چند سالوں میں وہ سپر پاور بن گیا۔ تعلیم، سائنس، ادب، فنون، ٹیکنالوجی، ملٹری، ثقافت، ہر ہر شے میں!

مدینہ میں لوگ اوس و خزرج کی لڑائیوں سے تنگ تھے اور یہود سے سن سن کر ایک نبی کے انتظار میں تھے۔ پس جب وہاں اسلام (خلافت، شریعت) نافذ ہوا تو صرف 40 سالوں میں دونوں سپر پاورز کو شکست دے دی گئی۔ اور مسلمان سب سے ترقی یافتہ قوم تھے۔ ۔ ۔ جو سفر اگلے 1200 سال جاری رہا۔

آج ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ یہ نظام ہم سے کہتا ہے کہ
1) سودی اکاونٹ کے بغیر نظام نہیں چلتا
2) انشورنس کے بغیر کاروبار نہیں
3)عورت کو سڑک پر لائے بغیر مارکیٹنگ اور ترقی نہیں
4) مسلمانوں کو بھول کر صرف ملکی مفاد کو دیکھنا ہی درست ہے
5) آبادی کم کرنا اشد ضروری ہے
6) مغربی آزادیوں کی پیروی کے بغیر کوئی چارہ نہیں
7)مغربی عدالتوں (کامن لاء) کے بغیر انصاف نہیں
8 ) آئین اور جمہوریت مقدس ہے

جبکہ لوگ اس ایک ایک چیز سے اختلاف کرتے ہیں ۔ مثلا

1) 84 فیصد لوگوں نے اکاؤنٹ ہی نہیں کھولا، جنھوں نے کھولا، مجبورا، وہ بھی کرنٹ۔
2) انشورنس تو 1 فیصد نے بھی نہیں کیا، 99 فیصد کے پاس کریڈٹ کارڈ نہیں۔
3) اکثریت پردے کی قائل اور حجاب بڑھ رہا ہے۔
4) لوگ برما، شام افغانستان، کشمیر سب کا درد محسوس بھی کرتے ہیں اور لوگ جہاد کیلئے بھی جاتے ہیں۔
5) بچے صرف دو۔ اکثریت یہ نہیں مانتی وہ صاف کہتے ہیں کہ اللہ رازق ہے۔
6) مغربی آزادیاں ۔ ۔ ۔لوگ لبرلزم کو مسترد کرتے ہیں۔
7) انگریزی قانون کو سب سے بڑا ظلم سمجھتے ہیں۔ ان کی نسلیں رل گئی ہیں اس میں۔
8 ) آئین اور جمہوریت مقدس ۔ ۔چار مارشل لاء آئے، ایک کے خلاف لوگ سڑکوں پر نہیں آئے۔ ۔ دو بندے جمہوریت کے تقدس کیلئے نہیں نکلتے، نکلتے ہیں تو صرف اسلام کے لئے۔
9) آئین کوزمین پر پھینک دیں، لوگوں کو ایک آنہ آئین کی پرواہ نہیں، سوائے اگر اس میں کوئی کلمہء ہو۔ لیکن نورانی قاعدے کو کوئی پھینک دیں تو شاید لوگ اس کو جلا ڈالیں۔

تو ترقی ہو تو کیسے ہو۔ ہم لوگ اس نظام کے بالکل مخالف کھڑے ہیں۔

اب!!!

حل دو ہیں۔ یا ہم اسلام کو بھول کر، مرتد ہو کر ، اس مغربی ماڈل اور دین کو اپنا لیں، جس کی کوشش آج تک ہر حکمران نے ہمارے ساتھ کی، لیکن ناکام رہا۔ اور یہ کافر ہوئے بغیر ہو نہیں سکتا۔

دوسرا حل ، جو کہ واحد اور صحیح حل ہے کہ ہمارے اوپر اسلام کا مکمل ، آفاقی نظام نافذ ہو جو ہمارے عقیدے، مزاج، خواہشات اور جذبات سے میل کھاتا ہے۔ ۔ ۔ تبھی ہم ایک سمت میں یکسو ہو جائیں گے۔

ذرا دیکھیں

1) جو مسلمان 25 سیکنڈز کیلئے اشارے پر انتظار نہیں کر سکتے، لیکن جنسی خواہش پوری کرنے کیلئے 25 سال انتظار کر لیتا ہے۔
2) جو کبھی بل جمع کرنے یا سرکاری دفتر میں قطار نہیں بناتا، لیکن لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود چند لمحوں میں مسجد / جنازے میں قطار بنا لیتا ہے۔
3) جو کبھی ٹیکس نہیں دیتا، اور ٹیکس کم کرنے کے لیے کنسلٹنٹ رکھتا ہے، لیکن زکواۃ کا ہمیشہ حساب کر کے کچھ اوپر دے دیتا ہے تاکہ غلطی نہ ہو۔ فطرانہ حساب سے زیادہ دیتا ہے۔
4) جو دفتر یا سرکار کو ایک روپے نہیں چھوڑتا، روز کچھ نہ کچھ فقیروں میں بانٹ دیتا ہے۔
5) جو اپنی کتنی ہی ضرورتوں پر خرچ نہیں کرتے لیکن قربانی کے جانور، حج و عمرہ پر ہزاروں لاکھوں لٹا دیتا ہے۔
جو ذرا سا بیمار ہونے پر بستر سے لگ کرنخرے اٹھواتا ہےلیکن جب فلسطین، افغانستان کشمیر کیلئے آسانی سے فدائی حملے کرنے اور جانیں لٹانے پر تیار ہو جاتا ہے۔
6) جس کے بچے بھوکے ہو، بیٹی کی شادی کے پیسے نہ ہو، اورحکمران اس کے وسائل لوٹ رہا ہے اور وہ خاموشی سے برداشت کرتا ہے لیکن نبی ﷺ کی توہین پر سب کچھ بھول بھال کر سڑک پر آ جاتا ہے۔

بات یہ ہے کہ اسے یقین ہو کہ یہ مسلمانوں، اسلام، اور آخرت میں کام آنے والی چیز ہے تو باوجودیکہ، ابھی کسی نے اس کی صحیح طرح تقویٰ بھی نہیں بنائی، پھر بھی وہ اتنا کچھ کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ تو جب خلافت میں ہر چیز اس دین کے مطابق ہو گی تو یہ قوم کہاں کی کہاں پہنچ جائے گی۔ پھر دنیا اس قوم کے معجزے دیکھ لے گی۔ پھر چند سالوں میں ایک بار پھر ہم سپر پاور کو شکست دے دیں گے۔ اور ہم تعلیم، انڈسٹری، معیشت، اخلاق، سائنس، فنون، ادب ، فنون لطیفہ اور ہر رخ سے دنیا کی نمبر ون قوم بن جائیں گے ۔ انشاء اللہ ۔ یہی خلافت ہے جس کی جانب ہمیں آنا ہو گا۔

Related Articles

Back to top button